November 28, 2011

ہیگ سے خط اور ثاقب کا بچپن

ایک بار ہیگ سے شہاب بھائی نے مزاح میں لکھا تھا:

اشفاق!
ثاقب خوب باتیں بناتا ہے۔ اگلے خط میں اس کی تصویر بھیجوں گا۔ راہ چلتی ہر میم اسے گھورتی ہے، پیار کرتی ہے، گال کھینچتی ہے پھر کہتی ہے

What a sweet darling. Looks exactly like his father.

یہ کلمات سن کر عفت خار کھاتی ہے لیکن اپنا دل پشاوری ہو جاتا ہے۔


Once Shahab bhai wrote a letter full of humour from The Hague:

Ashfaq!
Saqib makes up so many things. Will send his picture in the next letter. Each woman that passes by stares at him, shows affection, pulls his cheeks and then says:

'What a sweet darling, looks exactly like his father'

Iffat gets jealous on hearing this but my heart blossoms with happiness

دورِ حاضرہ میں بیعت

فی زمانہ بیعت بہت مشکل ہے۔ تعلیم اور ذہانت بہت بڑھ گئی ہے۔ مغربی اندازِ فکر نے ہم میں خود سوچنے کی صلاحیت بہت زیادہ پیدا کردی ہے۔ اس لئے بیعت کرنے والا پھندے میں پھنس جاتا ہے۔ بیعت کی یہ پہلی شرط ہے کہ سالک خیال میں بھی مرشد کی نافرمانی نہ کرے کیونکہ مرشد خیال میں فیض پہنچاتا ہے اور اگر سالک دل میں بھی نافرمانی کا مرتکب ہو جائے تو نقصان کا احتمال ہے۔

"Ba'iyat (oath of spiritual allegiance) is difficult in today's age. Education and intellect have progressed rapidly. The Western way of thinking has dramatically increased our individual capacity to think. That is why, one who does ba'iyat gets caught in a trap. The first condition of ba'iyat is that a spiritual follower should not disobey his guide even in his thoughts because the guide sends blessings through them and if a follower considers disobedience even in his heart, he is most likely to bear loss"



[From Mard e Abraisham. Translated by Zaki Khalid]

ڈرائی فروٹ اور آٹو گراف

آج صبح اشفاق سے دو ایسے آدمی ملنے آئے جو ‘پین ان دی نیک‘ تھے اُس کے لئے ۔ ۔ ۔ لیکن میرا وقت اچھا گزرا ۔ ۔ ۔ پھر میں نے خالد زہری اور ہیڈی کو خط لکھا۔ دوپہر کو ہم دونوں بیڈن روڈ گئے اور ڈرائی فروٹ خریدا۔ لیکن اشفاق نے کاجو اور بادام زیادہ خود کھائے اور مجھے کم دیئے ۔ ۔ ۔ مونگ پھلی اس نے کم کھائی اور مجھے زیادہ کھلائی ۔ ۔ ۔ ابھی آنے سے پہلے تھوڑی دیر کے لئے ہم لارنش باغ گئے تھے وہاں ہم نے کینو کھائے اور ایک ایسی عورت سے ملے جس نے اشفاق سے اپنے دوپٹے پر آٹوگراف لیئے۔ مجھے اُس نے پہچانا نہیں ورنہ مجھ سے ضرور آٹوگراف لیتی ۔ ۔ ۔

"Today morning, two men came to visit Ashfaq who were a 'pain in the neck' for him... My time went well though... Then I wrote a letter to Khalid Zehri and Heidi. We both went to Biden Road in the afternoon and bought dry fruit. But Ashfaq himself ate lots of cashew-nuts and almonds and offered me only a few... He had very few peanuts and gave more to me... Before coming here we went to Lawrence Garden for a while... There, we had some oranges and met with a woman who took Ashfaq's autograph on her dupatta. She did not recognize me else she would have definitely taken an autograph from me..."



[From Mard e Abraisham. Translated by Zaki Khalid]

قومی لنچ

مرکزی اردو بورڈ جو بعد میں اردو سائینس بورڈ ہوگیا، یہیں پر شہاب بھائی دوپہر کے وقت خان صاحب (اشفاق احمد) کے ساتھ سلاد اور روٹی کھاتے اور بڑی تعریف کرتے:

یار پاکستان میں یہ لنچ رائج ہونا چاہیے ۔ ۔ ۔ تھوڑا سا کچومر اور روٹی۔ لیکن اس میں ایک قباحت ہے ۔ ۔ ۔ یہ ہضم بہت جلد ہو جاتا ہے۔

Federal Urdu Board, which later became the Urdu Science Board, was where Shahab bhai ate chapatti and salad with Khan sahab (Ashfaq Ahmed) in the afternoon and used to speak highly of it thus:

"Yaar, this lunch should be imposed in Pakistan, some kachoomar (sliced up vegetables) and chapatti. But there is a drawback to it... it digests too quickly"


[From Mard e Abraisham. Translated by Zaki Khalid]

November 27, 2011

پراٹھے کھانے کا شوق

پراٹھوں کا ناشتہ کرتے کرتے ایک دن انھوں نے (شہاب بھائی) نے کہا:

"ماں جی اور میں جب جھنگ میں تھے تو وہاں ہم نے ایک بھینس پال رکھی تھی۔ میں صبح پراٹھے کے ساتھ مکھن کھایا کرتا تھا ۔ ۔ ۔ رفتہ رفتہ میری گردن غائب ہوگئی، کندھے اور سر آپس میں جُڑ گئے ۔ ۔ ۔ اور میں بالکل چورس نظر آنے لگا"

One day while having parathas (oiled chapatti) for breakfast, he (Shahab bhai) said:

"Maaji (mother) and I had a buffalo when we were at Jhang. I used to have butter with parathas in the morning. Gradually, my neck started to disappear; my neck and head merged together... And I started looking like a box"


[From Mard e Abraisham. Translated by Zaki Khalid]

خاموشی پہلا آپشن ہونا چاہیے

شہاب بھائی اپنی بھانجی گُڈی سے کہا کرتے تھے، اگر چپ رہنے سے گزارہ چل سکے تو خاموشی پہلا آپشن ہونا چاہیے۔ تمہارے پاس ہمیشہ دو چوائس ہوتے ہیں: بولنا اور چپ رہنا ۔ ۔ ۔ دوسری چوائس پہلی سے بہتر ہے۔

Shahab bhai used to tell his niece Guddi, if affairs can be handled by remaining silent, then silence should be the first option. You always have two choices: To speak and to remain silent. The second choice is better than the first.


[From Mard e Abraisham. Translated by Zaki Khalid]

May 25, 2011

بیرون ملک دولت جمع کرنے والا وزیر خزانہ

جن دنوں میں بیرون_ملک جمع کیے ہوئے زر_مبادلہ کے سلسلے میں چند سیٹھوں کے خلاف انکوائری کروانے میں مصروف تھا۔ ایک روز محمد شعیب صاحب میرے دفتر میں تشریف لائے۔ ورلڈ بینک کی ملازمت کی وجہ سے امریکہ میں ان کے کئی لاکھ ڈالر جمع تھے۔ انہوں نے صدر ایوب کے نام ایک درخواست لکھ رکھی تھی کہ انہیں یہ رقم امریکہ کے کسی بینک ہی میں رکھنے کی اجازت دی جائے۔

انہوں نے یہ درخواست میرے حوالے کرکے کہا کہ میں صدر ایوب سے منظور کرواکر اسے جلد از جلد ان کے پاس بھیج دوں گا۔ وزارت کے ساتھ ہی ساتھ ورلڈ بینک کی ملازمت کی وجہ سے شعیب صاحب کے خلاف کچھ قدرے تعصب میرے دل میں پہلے ہی موجود تھے۔ اب ان کی اس درخواست نے جلتی پہ تیل کا کام کیا۔ میں نے لگے ہاتھوں انہیں کراچی کے بڑے بڑے سیٹھوں کی سازشانہ حرکات کا حال سنایا اور اپنی برخود غلط عادلانہ اور متقیانہ راست بازی کے جوش میں کہہ بیٹھا

"سر! ملک کے وزیر_خزانہ کو پاکستان کے اقتصادی ثبات اور استحکام پر دوسروں کی نسبت زیادہ کامل یقین ہونا چاہیے۔ اگر آپ اعلان کرکے ڈنکے کی چوٹ اپنا بیرونی اثاثہ ہہاں لے آئیں تو اوروں کے لیے یہ نہایت صحت مند اور قابل_تقلید مثال قائم ہوگی"۔

میری بات سن کر شعیب صاحب تاؤ میں آگئے۔ انہوں نے اپنی درخواست جھپٹ کر میرے ہاتھ سے چھین لی اور تیزی سے بولے، "بس بس۔ میں یہاں پند و نصائح سننے نہیں آیا"۔

میرے کمرے سے نکل کر وہ سیدھے صدر ایوب کے پاس گئے اور اپنی درخواست پر ان کی منظوری کے دستخط ضبط کر لائے۔ ایک طرف وزارت_خزانہ کی کرسی، دوسری طرف ورلڈ بینک کی ڈائریکٹری کا سٹول۔ ان دونوں شناختوں کے درمیان شعیب صاحب کی ذات عجیب لطائف و ظرائف کا شکار ہوتی رہتی تھی۔ چند بار تو میں بھی ان غلط فہمیوں کی لپیٹ میں بری طرح آیا۔


"It were the days in which I was busy launching inquires against wealth gathered by a few big fish (businessmen) overseas. One day Muhammed Shoaib saab came to my office. He had lakhs of dollars stored overseas because of his work at the World Bank. He had drafted a request to President Ayub that he be allowed to keep the deposits at an overseas bank.

He handed the draft to me and tasked me to get it approved from the President and return it back as soon as possible. Because of Shoaib sahib's post as employee at the World Bank and simultaneously as a (national) Minister, I had considerable reservations in my heart for the man. His request acted as a catalyst to the fire that was already burning within me. I started relating incident of the conspiracies being hatched by some of Karachi's big fish and in a show of virtue and justice said:

"Sir! The country's Treasury Minister should be more concerned on the economic security and stability of Pakistan. If you openly announce to bring your accumulated wealth overseas here (in Pakistan), it will prove to be a very effective and exemplary action for others"

Shoaib sahib frowned at my comment. He snatched the draft from my hand and hurriedly said, "Enough! I did not come here to listen to unwanted advice!"

He went to President Ayub after leaving my room and got his request approved, securing the President's signature on it. On one hand the seat of the Treasury and the stool of World Bank's Directorship on the other. Shoaib sahib's persona went through a lot of funny mishaps and confusions because of the duality of his work nature. I myself got badly confused in all this very often."



[From Shahabnama. Translated by Zaki Khalid]